طلبا میں اعتماد کی کمی وجوہات اور اس کو ختم کرنے کے طریقے
مختصر سا تعارف: خوداعتمادی ایک کیفیت ہے۔جہاں ایک انسان ایک کام کرنے یا نہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں اس کے برعکس ایک اصطلاح ہے اور وہ ہے احساس کمتری جہاں انسان یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ فلاں کام کریں یا نہ کریں آج کل طلبا میں اس کی کمی بڑھتی جارہی ہے اس کی مختلف وجوہات ہیں مثلا: انسان کی شخصیت کے مختلف پہلو ہوتے ہیں جیسے کچھ لوگ” ظاہرپرست “ہوتے ہیں اور کچھ” باطن پرست”(مشاہدہ باطن میں مشغول رہنا) کچھ لوگ صاف گو ہوتے ہیں اور کچھ خاموش طبیعیت والےِ۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ ھمارے جینز میں ہوتا ہے کہ کون ظاہر پرست ہے اور کون باطن پرست کون صاف گو ہے اور کون خاموش طبعیت والے یہ ہمارے جینز میں پیدایشی طور پرفٹ ہوتا ہے یہ ہوتی ہے پیدایشی وجہ۔۔۔۔۔۔
۱: ایک وجہ یہ بھی ہے اور میرے خیال میں یہ ایک اہم وجہ ہے کہ عموما بچپن ہی سےایک بچے کو گھروالوں کی طرف سے توجہ نہیں ملتی آج کل کے والدین کے پاس اپنے بچوں کے لیے وقت نہں ہوتا باپ کو صرف کمانے کی فکر رہتی ہے اور ماں کو گھرداری کی۔۔۔۔ بچے کے زہن میں صرف یہ بٹھایا جاتا ہے کہ یا تو اسے ڈاکٹر ببنا ہے یا انجنیر۔۔ اسلیے بچہ صرف رٹا لگانے اچھے نمبر اور گریڈ لانے کی فکر میں رہتا ہے سکول کی سرگرمیوں میں اس کی دلچسی نہں ہوتی جس کی وجہ سے وہ ڈرا سہما ہوا رہ جاتا ہے۔
اس وجہ کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو وقت دیا کریں۔اچھے گریڈ اور نمبرات لانا اتنے ضروری نہں ہے اگر بچے کے نمبر اچھے نہں ہے تو بجاے کہ اس کو ڈانٹے اس کو اپنے ساتھ بٹھاکراس کی حوصلہ افزای کی جاے کہ اگلی بار اور محنت کرنے حوصلہ افزای کی جاے کہ اگلی بار اور محنت کرنے سے اچھے گریڈ لا سکتے ہو۔پڑھای کے علاوہ سکول کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا چاہیے تاکہ اس کا اعتماد بحال ہو مطلب کہ بچوں کے ساتھ والدین کا تعاون ہو تو بچہ پر اعتماد ہوتا ہے۔
۲: خوداعتمادی کی کمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ سکول میں پورے جماعت میں کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں جو اساتذہ کے پسندیدہ ہوتے ہیں ان کو جماعت کے اور بچوں پر فوقیت دی جاتی ہے جسکی وجہ سے کچھ طلبا احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور آگے نہیں بڑھ پاتے کیونکہ ان کو باربار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے وہ اندر سے سہما ہوتا ہے اور سوال بھی نہیں کرتا کی کہی سوال کرنے سے اس کے ہم جماعت اس پر نہ ہنسے اسلیے وہ طالب علم سب سے پھیچےرہتا ہے ۔ اس کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اساتذہ کو چاہیے کہ تمام بچوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھیں کسی بچے کو پسندیدہ نہ قرار دیا جاے اس سے پسندیدہ بچہ اور کانفڈنٹ اور عام بچہ شدید احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے اگر کوی بچہ کہے کہ فلاں کام نہیں آتا تو بجاے اس کے کہ اس کو ڈانتٹا جاے اس کو یہ احساس دلایا جاے کہ وہ بہت کچھ کرسکتا ہے اس کے ساتھ مشفقانہ رویہ اختیار کیا جاے اس کے بچے کے اندر سے ڈر ختم ہوتا جاے گا۔
۳: خود اعتمادی کی کمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات کچھ ایسے دوست مل جاتے ہیں جن میں بلا کی خود اعتمادی ہوتی ہے طلبا ین پر منحصر کرنا شروع کرتے ہیں اس وجہ سے بھی وہ پھیچے رہ جاتے ہیں۔ اسکو ختم اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ دوسروں پر انحصار کرنا چھوڑیں اور اپنے آپ پر اعتماد کرنا سیکھے خود پر اعتماد تبھی ممکن ہے کہ کسی کام سے ڈرنا نہیں چاہیے اور ہر کام کو کرنے کا خود پر یقین رکھنا چاہیے۔
۴: عموما یہ ہوتا ہے کہ جماعت میں کچھ طلبا اپنے اساتذہ سے سوالات کرتے ہیں وہ سوالات چاہے پڑھای کے متعلق ہو یا موسمیات کے یا عام معلومات۔ اور کچھ طلبا خاموش رہتے ہیں جو طلبا سوالات کرتے ہیں ان میں خوداعتمادی بڑھتی ہے اور اور جو نہیں کرتے ان میں خوداعتمادی اسلیے نہیں ہوتی کہ انہوں نے کبھی سوال نہیں کیا ہوتا۔ اسکا مطلب ہے کہ خوداعتمادی انسان میں تب ہی پیدا ہوتی ہے جب وہ ایک عمل شروع کرتا ہے اور آج کے دورکا ایک المیہ بن گیا ہے کہ بے عملی بڑھ گی ہے محنت کرنا چھوڑ دیا گیا ہے کوشیش کرنی چھوڑی ہےاور ہم نے آواز اٹھانابھی چھوڑ دیا ہے جو صحیح ہورہا ہے یا غلط بس ہورہا ہے ہمیں اس سے کوی لینا دینا نہیں ہے
۵: ایک وجہ آج کل کے حالات ہے جو بہت زیادہ خراب ہے اور ڈر کی وجہ سے بچوں کا آنا جانا باہر بند کردیا ہے اسلیے اسے لوگوں سے بات کرنے کا طریقہ اس طرح نہیں آتا جس سے معاشرے میں آگے بڑھاجاسکے۔ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے وہ اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا جب تک وہ دوسروں کے ساتھ گھل مل کر رہے گا نہیں اسے لوگوں کے ساتھ بات کرنے کا طریقہ نہیں آے گا اس لیے مختلف لوگوں سے ملنے سے بھی انسان میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے اگر دیکھا جاے تو جن میں خوداعتمادی ہوتی ہے وہ انسان نہ کبھی مشکلوں سے گھبراتا ہے اور نہ ہی چیزوں کو سر پر سوار کرتا ہے بلکہ اس کے پاس ہر مشکل کا حل ہوتا ہے۔۔ اس کے برعکس کم اعتماد والے انسان کو دیکھا جاے تو وہ ہر وقت ڈپریشن میں ہوتا ہے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اس میں نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔
“قراۃالعین”
Leave a Reply